Islamic research about Islamic Believes

اس بلاگ پہ اسلامی عقائد/اخلاق/فقہ/سیاست سے متعلق موضوعات کے بارے میں تحقیقیں شائع کی جاتی ہیں۔

اس بلاگ پہ اسلامی عقائد/اخلاق/فقہ/سیاست سے متعلق موضوعات کے بارے میں تحقیقیں شائع کی جاتی ہیں۔

Islamic research about Islamic Believes

1438 هجری

 قبلہ جناب سید سمیر علی جعفری صاحب سے خصوصی شکریہ کے ساتھ کہ انہوں نے عقائد سے مربوط اپنی اس نہایت ہی اہم موضوع پہ کی جانے والی تحقیق کو ہمیں اپنے ذاتی بلاگ پہ شائع کرنے کا موقعہ دیا اور ہمارے تمام قارئین کو اس علمی نمونہ سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دی.

انشااللہ حضرت حق انکے علم میں روز بروز اضافہ کرے اور انہیں حقیقی اسلام کی مزید خدمت کا موقعہ دے.

موضوع: فلسفہ نزول بلا

(بالخصوص نزول بلا بر صالحین)

محقق: سید سمیر علی جعفری

استاد: آقا اعظم حسین خان

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

سوال اصلی: صالحین اور اولیائے الٰہی پر نزول بلا کا فلسفہ کیاہے؟

سوال فرعی: خدا عالم ہے اپنے بندوں کے بارے میں علم رکھتا ہے تو ان کو آزما کر کس چیز کے بارے میں جاننا چاہتا ہے؟

سوال فرعی: جب  خدا نے آئمہ اور انبیا کو ان کے منصب امتحان سے پہلے دے دئیے تو پھر انکا امتحان کیوں لیا؟

سوال فرعی: اگر امتحان درجات کی بلندی کے لئے ہیں تو آئمہ اور انبیا کے درجات تو پہلے سے مشخص ہیں پھر ان کے امتحان سے کیا فائدہ؟

 

 

واژگان کلیدی: فلسفۂ ابتلأ۔ نزول بلا۔ ابتلأ۔ امتحان۔ آزامائش۔ صالحین کی آزمائش۔ ابتلائے انبیا و اولیأ۔ آئمہ کا امتحان۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

فہرست مطاالب

 

مقدمہ. 

رابطہ اختیار انسان و آزمائش (امتحان). 

فصل اوّل. 

مفہوم ابتلأ.. 

مفہوم ابتلأ خود قرآن کی نگاہ میں. 

حصّہ اوّل: 

حصّہ دوم: 

عمومیت سنت آزمائش و امتحان: 

فصل دوم. 

قرآنی آیات کے پرتو میں فلسفہ ابتلأ.. 

انسان ایک سرّ نہاں: 

ابتلأ سبب شناختِ ہویت واقعی انسان: 

الف۔ جدائی میان مومن و منافق: 

ب۔ اظہار پاکیزگی و پلیدگی: 

ج۔ ایجاد حالتِ تضرع: 

د۔  بلا و مصیبت نتیجہ اعمال انسان: 

ھ۔  خواب غفلت سے بیداری: 

فصل سوم. 

فلسفہ درد و رنج صالحین اور اولیائے الٰہی کی زندگی میں: 

سوالات: 

الف۔ مختصر جواب: 

اولاً: 

ثانیاً: 

ثالثاً 

ب۔ مفصل جواب: 

اصل فلسفہ نزول بلا و گرفتاری صالحین و اولیائے الٰہی: 

موجب کرامت.. 

خدا کی بارگاہ میں مقام و منزلت کا سبب: 

نہج البلاغہ کا بیان: 

نمونۂ عمل: 

سوال آخر: 

جواب: 

نتیجہ بحث: 

حوالا جات.. 

منابع و مآخذ. 

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مقدمہ

ابتلأ و بلا کا مفہوم امتحان کے مساوی جانا جاتا ہے اور اس مسٔلہ کی حقیقت بظاہر مخفی ہے اور سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ خدا آخر امتحان کیوں لیتا ہے؟ کیا خدا ہمارے باطن کو جاننا چاہتا ہے اس حال میں جبکہ اس کو ہمارے ظاہر اور باطن کی پوری پوری اطلاع اور وہ ہمارے تمام مخفی اعمال حتیٰ ہمارے ارادوں اور نیتوں سے بھی با خبر ہے؟ کائنات کا ہر ذرہ اس کے علم میں ہے پھر اس کو ہمارا امتحان لیکر ہمیں مبتلائے مصیبت کرکے کس چیز کے بارے میں جاننا ہے؟ کائنات کا کوئی ذرہ اس سے پوشیدہ نہیں ہے وہ انسان کا خالق ہے اور اس کے ظاہر باطن سے آگاہ ہے پھر کس چیز کا امتحان؟ اگر امتحان اور مصیبت کو اس بات سے متصل مان لیا جائے کہ جو کچھ بھی اس دنیا میں سرد و گرم ہمیں در پیش ہے وہ سب ہمارے اپنے اعمال قبیحہ کے نتائج ہیں تو پھر انبیأ و صالحین اور آئمہ ہدیٰ علیھم السلام اور اولیائے الٰہی جو گناہوں سے منزہ ہیں انکو کس لئے سخت امتحانات میں ڈالا گیا؟ خدا انسان کے تمام اسرار و رموز سے آگاہ ہے اور غنی علیٰ الاطلاق ہے تو اس کو اپنے بندوں کو آزمانے کی کیا ضرورت محسوس ہوئی؟ اور خدا وند متعال حکیم ہے اور اسکی صفت حکمت کا تقاضہ یہ ہے کہ اسکا کوئی کام حکمت سے خالی نہ ہو تو پھر ان امتحانات اور بلاؤں کے شکنجے میں آخر کیا حکمت پوشیدہ ہے؟

اس سوال کا ابتدائی جواب تو اس طرح دیا جاسکتا ہے کہ جب ہم یہ مانتے ہیں کہ خدا حکیم ہے اور اسکا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا اور اس بات کو بھی باور کرتے ہیں کہ اگر یہ بلائیں خدا کی جانب سے ہیں تو ان میں ضرور بالضرور حکمت پوشیدہ تو یہ بات بھی جان لینی چاہئے کہ یہ ضروری نہیں کہ ہر کام میں پوشیدہ حکمت کا ہمیں علم ہو اور ہر امر جو اس عالم میں پیش آئے ہم اسکی علّت کو بھی جانتے ہوں۔ یہ شبھہ اور سوال در اصل اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ ہم موضوعِ ابتلائے الٰہی کو انسانی مفہوم ابتلا و امتحان کی بنیاد پر پرکھتے ہیں اور انسانی ذہن میں ابتلا و امتحان کو مفہوم کسی کام یا چیز جس سے وہ جاہل ہے اور جس حقیقت سے ناآشنا ہے اس کو تجربہ اور آزمائش کے ذریعہ معلوم بنانا ہے۔ انسان ان تجربات و آزمائشات کے ذریعہ بہت ہی محدود معنی میں حقیقت تک پہنچتا ہے لیکن کنہ حقیقت سے دور رہتا ہے لیکن فلسفہ ابتلائے الٰہی نہ کشف حقیقت ہے نا ہی نیاز و حاجت کا پورا کرنا اور کسی مجھول کو معلوم بنانا کیونکہ اللہ رب العزت اس عالم کے ظاہر و باطن پر محیط ہے اور تمام عالم کا ظاہر و باطن اس کے لئے یکساں ہے و اسرّوا قولکم او اجھرو بہ انّہ علیم بذات الصدور الا یعلم من خلق و ھو اللطیف الخبیر (۱)۔ جو کچھ انسانوں کے دلوں میں پوشیدہ ہے وہ اسکا جاننے والا ہے و ان ربک لیعلم ما تکن صدورھم وما یعلنون وما من غائبۃ فی السمأِ والارض الاّ فی کتاب مبین (۲)۔ لہٰذا جب خدا انسان اور تمام عالم کے بارے میں آگاہ ہے تو پھر امتحان و ابتلأ کی حکمت اور سرِّ نہاں یہ ہیکہ امتحان کے ذریعے انسان کی ذاتی قابلیتوں کا جو خدا نے اس کے خمیر میں گوندھ دی ہیں، اظہار ہواور نیک لوگوں کی عظمت اور بدکاروں کی پلیدی اور برائی آشکار ہو جائے اور حق باطل سے جدا ہوجائے۔ لہذا امتحان الہی کا مقصد افراد کی وضعیت کے بارے میں جاننا نہیں بلکہ انسان کی چھپی ہوئی صلاحتیوں اور اس کے حقائق کو عنیت بخشنا ہے، ابتلائے الٰہی کو حقیقت لیمیز اللہ الخبیث من الطیّب (۳) ہےتاکہ ثواب و عقاب تحقق پذیر ہو سکے اور یہ غرض و غائت ابتلأ نا علم الٰہی سے متصادم ہے نا ہی حکمت الٰہی پر اس سے کوئی حرف آتا ہے رہا یہ سوال کہ صالحین پر بلا اور مصیبتیں کیوں نازل ہوئیں (جو کہ ہمارا اصل موضوع ہے) اسکا جواب اس کے مقام پر دیا جائے گا۔

استاد شہید مرتضیٰ مطہری اس سوال کے جواب میں فرماتے ہیں : ایک وقت ہم کسی چیز کی آزمائش کرتے ہیں تاکہ مجھول کو معلوم بنا لیں اس کام کے لئے ہم کوئی میزان و مقیاس مقرر کرتے ہیں مثلاً ترازو کے پلڑوں میں کسی چیز کو تول کر ہم اس بات کا اندازہ کرتے ہیں اس چیز کا وزن کتنا ہے لیکن ترازو صرف اس بات کی نشاندہی کر سکتا ہے کہ جسم کا وزن کتنا ہے اس کی کمی یا زیادتی میں ترازو مؤثر نہیں ہے بلکہ وزن کو کم یا ذیادہ کرنے کے لئے ہمیں دوسرا کوئی فعل انجام دینے کی ضرورت ہے اسی طرح امتحان کے ایک اور معنی ہیں وہ یہ کہ قوت کو فعل کے زمرہ میں لانا اور اسکو پایہ تکمیل تک پہنچانا خدا جو امتحانات اور شدائد کے ذریعے آزمائش کرتا ہے وہ اس معنی میں ہے کہ ان کے ذریعے ہر فرد جس کمال و سعادت کا اہل ہے اس تک اسکو پہنچا دیا جائے۔ فلسفہ شدائد و ابتلا صرف وزن کو تولنا اور کمیت کا اندازہ کرنا نہیں ہے بلکہ وزن کو کم یا زیادہ کرنے اور کیفیت کو بلند درجہ پر پہنچانے کے کا ذریعہ ہے(۴)۔

رابطہ اختیار انسان و آزمائش (امتحان)

ضروری ہے امتحان و ابتلأ کی بحث میں انسان کے اختیار و آزادی کے متعلق کچھ گفتگو ہو جائے اگرچہ یہاں انسان کے اختیار کے مسئلہ پر فلسفی و کلامی ابحاث کی گنجائش نہیں ہے مگر اجمالاً اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کیونکہ یہ انسان کا اختیار ہی ہے جو اسے دیگر موجودات عالم سے ممتاز کرتا ہے اور قرآن کریم نے متعدد آیات میں انسان کے اختیار و قدرت عمل کو موضوع بنایا ہے اور اسی اختیار کو انسان کی خلقت کا تکوینی جز شمار کیا ہے اور یہی اختیار ہے جو خدا کے تشریعی احکامات کی بجاآوری کے لئے زینہ بنتا ہے اور انسان کے اخروی ثواب و عقاب میں تاثیر رکھتا ہے اس بارے میں خدا وند متعال کا ارشاد ہے کلاً نمد ہٰؤلأ و ھٰؤلأ من ربک و ما کان عطأ ربک محظورا (۵)۔ یہاں امداد سے مراد انسان کی قدرت انتخاب و عمل ہے جو نوعِ بشر کی خلقت کا جزِٔ تکوینی ہے اور اسی اساس پر اسکے لئے احکامات تشریعی وضع کئے گئے ہیں انا ھدینہٗ االسبیلَ اما شاکرا و اما کفورا (۶)۔ قرآن کی نگاہ میں انسان کی قیمت و ارزش اسکی معرفت نفس یعنی ان صلاحیتوں اور قوتوں کو جاننے اور ان کے استعمال میں پوشیدہ ہے جو اسکے وجود کا حصّہ ہیں اسی لئے قرآن انسان کی سعادت و شقاوت کو خود اس کے اعمال کا عکس العمل اور نتیجہ کہتا ہے۔ انسان کا زوال و کمال اسی نعمت اختیار کے استعمال پر منحصر ہے کیونکہ صرف فاعل بالارادہ ہونا انسان کی شناخت کے لئے کافی نہیں بلکہ اس کی ہویت کا تقاضہ اس کے ارادہ اور اختیار کا میدان عمل میں ظاہر ہونا ہے اور یہی اظہار اس بات کی خبر دیتا ہے کہ انسان سعید ہے یا شقی۔ لہٰذا یہ اختیار انسان کو پرکھنے کی کسوٹی ہے اور امتحان بھی در اصل انسان کے اختیار کا امتحان ہے اور اس میں کامیابی اسکے اپنے اختیار سے مربوط ہے۔

 

 

 

 

 

فصل اوّل

 

مفہوم ابتلأ

 ابتلأ باب افتعال کا مصدر ہے اور بلا کے مادہ سے مشتق ہے خود بلا اور اسکے مشتقات ۳۷ مقامات پر قرآن میں ذکر ہوئے ہیں لغت میں ابتلأ کا مطلب امتحان، تجربہ، پردہ اٹھانا، آزمائش اور کشف کے ہیں (۷) راغب نے مفرادات میں کلمہ بلا کے معنی بتدریج پرانا، بوسیدہ اور فرسودہ ہوجانے کے کئے ہیں اور اس کے معنی تداوم و تکرار بھی بیان کئے گئے ہیں (۸) بعض محققین اور لغت شناس اس بات کے معتقد ہیں کہ لغت میں مندرج معنی اور قرآن کا لفظ بلا اور اس کے مشتقات اور اس کے ہم معنی الفاظ کا استعمال اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ بلا و ابتلأ کے معنی تغییر اور تحوّل کا ایجاد کرنا کے ہیں اور یہ معنی عام بھی ہیں اور جامع بھی اس تعریف کے مطابق ابتلأ کے دیگر معنی یعنی امتحان، اختیار، تجربہ وغیرہ جو قرآن میں استعمال کئے گئے ہیں سب کے سب مصادیق کے بیان کے لئے ہیں نہ کہ کلمہ کے معنی کے بیان کے لئے (۹)۔ اسی بنا پر ولنبلوکم بشیٍٔ من الخوف (۱۰) کے دقیق معنی یہ ہوئے کہ ہم تمہارے حالات اور امور زندگی میں تحول و تغییر ایجاد کریں گے اس تحوّل کا مقصد انسان کے اوصاف و خصوصیات کی شناخت بھی ہو سکتی ہے اور انسانی استعداد کا رشد بھی، اور یہ  دونوں امور ابتلأ کا جز ہیں۔

مفہوم ابتلأ خود قرآن کی نگاہ میں

قرآن کریم نے ابتلأ کے مسئلہ کو ایک سنت الٰہی کے طور پر بیان کیا ہے قرآنی مفاہیم فتنہ، امتحان، تمحیص و تمییز وغیرہ اس کے ساتھ ساتھ کہ ان کے اپنے جداگانہ لطیف معنی ہیں، باہم مربوط اور ہم معنی استعمال ہوئے ہیں اور سنت الٰہی یعنی بندوں کی آزمائش کو بیان کرتے ہیں اگرچہ با اعتبار کلی امتحان سے متعلق آیات ایک ہی بحث پر مشتمل ہیں اور ایک ہی جھت کو بیان کرتی ہیں (۱۱) مگر ہر آیت اپنے بیان لے لحاظ سے ایک موضوع خاص کو اپنے ضمن میں لئے ہوئے ہے اسی بنا پر ہم ان آیات کو دو حصّوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔

حصّہ اوّل: وہ آیات جو مسئلہ ابتلأ کو ایک موضوع کلی کے طور پر بیان کرتی ہیں اور امتحان کی عمومیت کو ہر بشر ہے لئے ثابت کرتی ہیں۔

 ۱۔ سورہ مومنون میں قوم نوحؑ کے عبرت آموز واقعہ کو بیان کرنے اور اسکو قدرت الٰہی کی عظیم نشانی سے تعبیر کرنے بعد خدا اپنے پیامبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وحی فرماتا ہے ان فی ذٰلک لآیاتٍ و ان کنا لمبتلین (۱۲) یعنی آزمائش و ابتلأ کسی زمانے یا گروہ کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ یہ ایک قانونِ کلی اور سنت الٰہی ہے جو سب کے لئے جاری ہے۔

 ۲۔ احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا آمنا و ھم لایفتنون ولقد فتنا الذین من قبلھم فلیعلمن اللہ الذین صدقوی و لیعلمن الکٰذبین (۱۳) اس آیہ ما فی ہدایہ کا سخت لہجہ اور شدید تنبیہ ہر انسان کے خطرے کی گھنٹی ہے کہ ہر انسان ہوشیار اور متوجہ رہے کہ اسے ہر حال میں امتحان الٰہی سے گذرنا ہے حتیٰ وہ لوگ بھی جو صالحین کے زمرے میں آتے ہیں تاکہ کوئی بھی شخص اپنے ایمان کے دعوی کی وجہ سے خود کو امتحانِ الہی سے محفوظ و مامون نا سمجھے۔ ان آیات میں پے در پے تاکیدات کا استعمال ایک طرف امتحان الٰہی کے قطعی ہونے پر دلالت کرتا ہے تو دوسری طرف اس موضوع کی حسّاسیت اور اہمیت کو واضح کرتا ہے (۱۴)۔ مسئلہ ابتلا کوئی ایسی چیز نہیی جو مقابلہ کے امتحان کی مانند ہو جو ایک مرحلہ اور ایک خاص زمانے مربوط ہو بلکہ امتحان الٰہی نا پیشگی اطلاع کے ہمراہ آتا ہے نا ہی اس کے زمانے کا طول مقرر ہے اور نہ ہی اسکی گنتی معین و محدود ہے بلکہ آیات الٰہی اس بات کی غماز ہیں کہ ابتلأ الٰہی کسی بھی وقت، کہیں بھی پیش آسکتی ہے۔

۳۔ الذی خلق الموت الحیاۃ لیبلوکم ایکم احسن عملا و ھو العزیز الغفور (۱۵) اس آیت میں مسئلہ امتحان کو با عنوان فلسفہ خلقت انسان بیان کیا گیا ہے اس آیت کی تشریح و توضیح سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ انسان کی زندگی اور موت دونوں ابتلائے الٰہی کے تحقق پذیر ہونے کا ذریعہ اور انسان کو امتحان کی میزان پر تولنے کا سبب فراہم کرتے ہیں اسی سے مشابہ ایک اور آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے انا خلقنا الانسان من نطفۃٍ امشاج نبتلیہ فجعلنٰہ سمعیاً بصیراً (۱۶) یہاں نبتلیہ کی ضمیر انسان کی طرف پلٹتی ہے اور اس مراد خاص انسان نہیں بلکہ نوعِ انسان ہے۔ آیات کا یہ دستہ اس بات پر دلالت کرتا ہے امتحان الٰہی ایک سنت تغیر ناپذیر ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کی پیدائش کا فلسفہ بھی ہے اور انسان کی فردی اور اجتماعی زندگی اسی محور پر گردش کرتی ہے۔

حصّہ دوم: وہ آیات الٰہی جو امتحان کی نوعیت اور کیفیت کو بیان کرتی ہیں

۱۔ و نبلوکم بالشر والخیر فتنۃ و الینا ترجعون (۱۷)

۲۔ ما الحیاۃ الدنیا الاّ متاع الغرور لتبلون فی اموالکم و انفسکم (۱۸)

موارد ابتلا و امتحان کو بیان کرنے والی آیات میں سے ان دو آیات کا انتخاب عنوان خیر و شر اور اموال و انفس کی بنا پر کیا گیا ہے تاکہ وہ آیات جو ان سے مشابہ ہیں ان کے ضمن میں آسکیں جو عناوین ان آیات میں بیان ہوئے ہیں وہ عمومیت رکھتے ہیں اور تمام انسان ان سے بہرہ مندی یا محرومیت میں شامل ہیں معیشتی و اقتصادی سختیاں، گھریلو مسائل، عزت، دولت، جاہ و حشم، مقام و مرتبہ کا حصول اور ان کا ہاتھ سے نکل جانا ہر انسان کی زندگی میں وسیلہ امتحان ہیں

پہلے دستہ کی آیات امتحان کے حتمی ہونے پر دلالت کرتی ہیں اور دوسرے دستہ کی آیات مختلف انسانوں کے لئے امتحان کی نوعیت و کیفیت کے مختلف ہونے کو بیان کرتی ہیں

 

عمومیت سنت آزمائش و امتحان:

علم اصول کی معروف اصظلاح ہے کہ ما من عام الا و قد خص اگر اس سے مراد یہ ہو کہ کوئی عام ایسا نہیں جو خاص نا ہو جائے تو یہ تعبیر درست نہیں ہوگی کیونکہ بعض عموم ایسے ہیں جو ناصرف خاص نہیں ہوتے بلکہ تخصیص ناپذیر ہیں جیسے فلسفہ و ریاضی کے کلیات اور بعض قرآنی بیانات جو عمومیت پر دلالت کرتے ہیں جیسے کل نفس ذائقۃ الموت یا کل امری بما کسبت رہین (۱۹)۔ لیکن اگر اس جملہ سے مراد یہ لی جائے کہ ہر عام قانون موارد کے اعتبار سے خاص ہو جاتا ہے تو عام کو خاص میں دامن میں سمیٹا جاسکتا ہے (۲۰)۔ سنت ابتلأ قرآن کے عمومی موضوعات میں سے ہے اور نوعِ انسانیت کے لئے ابتلأ بعنوان ابتلأ کسی تخصیص کی حامل نہیں ہے کیونکہ انسان اپنی عقل، بلوغ، علم اور اختیار کی بنا پر اس عام قاعدہ امتحان و بلا سے مستثنیٰ نہیں ہے۔

 

 

فصل دوم

 

قرآنی آیات کے پرتو میں فلسفہ ابتلأ

قرآن کریم کی وہ آیات جو موضوعِ ابتلا کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں اس بات کی غمازی کرتی ہیں قرآن ابتلأت الٰہی پر دو محوروں سے گفتگو کرتا ہے

(الف)۔ حقیقت و شخصیت بشر

(ب)۔ ثواب و عقاب اخروی افراد

قرآن کی نگاہ میں امتحان و بلا کا اہم ترین فلسفہ اور حکمت آزمائش افراد کے چہرے سے نقاب کو الٹنا ہے یعنی ممتحن کی حقیقت کو نمایاں کرنا اور اسکی چھپی ہوئی مثبت اور منفی قوتوں اور صلاحیتوں کو ظاہر کرکے اس کے نفس کے پاکیزگی و خباثت کو آشکار کرنا ہے۔

انسان ایک سرّ نہاں: ابتلا کے موضوع کی اہمیت کی وضاحت اس وقت ممکن نہیں جب تک ہم انسان کی صلاحتیوں اور اسکی پوشیدہ حقیقتوں اور اس کے پیچیدہ نفس کے بارے میں علم حاصل نا کرلیں۔ خدا نے انسان کو نفس کو کچھ ایسا پیچیدہ بنایا ہے کہ خود انسان بھی اپنی مختلف ابعاد کو درک کرنے قاصر ہے اسکا نفس اور روح اُس وسعت کے حامل ہیں کہ انسان اور اسکی روح کی جامع تعریف ممکن نہیں ہے اور حقیقت نفس و روح کا بیان ہماری عقل فکر اور اندیشہ سے بہت بالا ہے قل الروح من امر اللہ (۲۱) اور فقط خدا ہے جو اسکی حقیقت سے آگاہ ہے فانہ یعلم السرّ و اخفی (۲۲)۔ انسان خود اپنے نفس کی وسعت اور استعداد کو درک کرنے سے قاصر ہے اور بسا اوقات خود نہیں سمجھ پاتا کہ وہ حق پر ہے یا باطل ہر لہٰذا وہ افراد جو ظاہراً اہل ایمان ہیں الیکن بباطن اہل نفاق ہیں ان کے واقعی چہرے کو عیاں کرنا انکی حقیقتوں کو کھولنا صرف امتحان کے ذریعے ہی ممکن ہے تاکہ شیطان صفت لوگوں کا باطن کھل کر سامنے آجائے۔

شیطان مردود جس نے سالہا سال خدا کی عبودیت اور بندگی کا ڈھونگ رچایا اور اپنے تکبر کو دوسروں حتیٰ اپنے آپ سے بھی چھپائے رکھا امتحان کے موقع پر اس کی حقیقت آشکار ہوگئی۔ سنت الٰہی اور آزمائش کی خصوصیات میں فرد کی شخصیت کو منظر عام پر لانا ہے اور انسان میں طوفان برپا کرنا ہے اور کم ہی لوگ ایسے ہیں جو امتحان کے موقع پر لغزش سے دوچار نہ ہوئے ہوں یہاں تک کہ وہ لوگ جو سبقت ایمان کے دعوی دار تھے اور جنھوں نے خدا اور اسکے رسول کی حمایت کی تھی کارزار جنگ میں ابتلائے الٰہی میں گرفتار ہوئے تو تو نصرت الٰہی کے وعدے اور اپنے اعتقادات کی نسبت بھی شک کا شکار ہوگئے۔ و اذ ذاغت الابصار و بلغت القلوب الحناجر و تظنون باللہ الظنونا (۲۳) یعنی جس وقت امتحان اور شدائد اپنے عروج پر ہوں تو مومن بھی شک کا شکار ہوجاتے ہیں اور ظاہر ہوجاتا ہے ایمان نے کس کے قلب میں جڑیں کتنی مضبوط کی ہیں اور یہ واقعیت بحرانی کیفیات میں انسان کے ردِّ عمل سے مربوط ہے بہت کم ہیں وہ افراد جو بحرانی حالات اور سختیوں میں ثابت قدم رہے ہوں اور جب دو راہے پر آن کھڑے ہوئے ہوں تو راہِ مستقیم و صراطِ خداوندی پر استوار رہے ہیں اسی لئے قرآن کریم نے امتحان و بلا کو کبھی فتنہ سے تعبیر کیا ہے کیونکہ اپنے معنی کے لحاظ سے کلمہ فتنہ سونے کو بھٹّی میں تاپ کر کندن بنانے کے لئے استعمال ہوتا ہے اور فتنہ بھی مومن کے ایمان کو ناخالصیت سے علیحدہ کر کے واضح کردیتاہے اور مومن کے اعمال و رفتار کے ذریعہ اس کی ہویت اور شخصیت کو نمایاں کردیتا ہے۔  اگر امتحان و آزمائش کی سختیاں اور دباؤ نہ ہو تو انسان کی قوتیں بالقوہ ہی رہ جائیں اور کو بالفعل ہونے کا موقع نہ ملے (۲۴)

ابتلأ سبب شناختِ ہویت واقعی انسان: انسان کی نفسانی کرامت و رذیلت امتحان کی دشوار گذار گھاٹیوں میں سفر کرنے کے طفیل ہی کھل کر سامنے آتی ہے اور اس کی اخلاقی اقدار اسوقت تک روشن نہیں ہوتیں جبتک وہ مشکلات کے سمندر میں غوطہ خوری نہ کرلے۔ غربت اور بیماری کے مزہ کو چکھے بغیر کوئی بھی تندرستی اور ثروت کی اہمیت کو نہیں سمجھ سکتا اسی طرح جب تک وہ روحانی مشکلات میں گرفتار نہ ہو معنویات کے مفہوم سے نا آشنا رہتا ہے۔ بلا و مصیبت مفاہیم اخلاقی کو ارزش بخشتے ہیں اور گمراہی اور ریا کے پردوں کو چہروں سے ہٹا دیتے ہیں اور فرد کی حقیقت کو کما حقہ بیان کردیتے ہیں۔ اگر امتحان کا وجود نہ ہو تو فضائل و کمالات انسان جیسے اخلاص، صبر، شجاعت و سخاوت وغیرہ اپنی وقعت کھو دیں۔ یہ ابتلا کے ہی اثرات ہیں جو انسان کو انسان بننے میں مدد فراہم کرتے ہیں اور اسکی اخلاقی قدریں امتحان کے زیر سایہ پروان چڑھتی ہیں۔ قرآن کریم متعدد آیات میں اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتا ہے جس کے چند نمونہ درج ذیل ہیں

الف۔ جدائی میان مومن و منافق: و لنبلونکم حتیٰ نعلم المجاھدین منکم و الصابرین و نبلوا اخبارکم (۲۵) یعنی تمہیں جنگ اور دیگر ناخوشگوار واقعات کے ذریعے ضرور آزمایا جائے گا تاکہ مومنین اور مجاھدین کو جھوٹوں سے علیحدہ کیا جاسکے اور مومنین اور منافقین کی صفیں نمایاں ہو جائیں وگرنہ قل أتعلمون اللہ بدینکم واللہ یعلم ما فی السماوات و ما فی الارض (۲۶) حتی نعلم سے مراد یہ نہیں کہ خدا اس لئے امتحان لینا چاہتا ہے کہ وہ تمہاری حالت اور کیفیت کو جاننا چاہتا ہے بلکہ خدا تو ظاہر اور باطن سے آگاہ ہے بلکہ امتحان کا مقصد یہ ہیکہ تمہاری صداقت و دیانت کو میدان عمل آزمائے اور ظاہر گروں کو رسوا کرے اور انسانی حقیقت پر پڑے پردوں کو چاک کردے۔ اس حقیقت کو قرآن ان الفاظ میں اور وضاحت کے ساتھ بیان کرتا ہے ام حسب الذین فی قلوبھم مرض ان لن یخرج اللہ اضغانھم و لو نشأ لأرینٰکھم فلعرفتھم بسیماھم ولتعرفنھم فی لحن القول واللہ یعلم اعمالکم (۲۷) ان آیات کا اصل مخاطب منافقین ہیں کہ بھلا کس لئے وہ خود کو فریب دیتے ہیں جو کہتے ہیں عمل اس کے خلاف کرتے ہیں لہذا وہ یہ جان رکھیں خدا انکی حقیقت کو جانتا ہے اور پیامبر اور مومنیں بھی انکی حالت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ولیبتلیٰ اللہ ما فی صدورکم و لیمحص ما فی قلوبکم و اللہ علیم بذات الصدور (۲۸)

ب۔ اظہار پاکیزگی و پلیدگی: ابتلأ الٰہی کا ایک فلسفہ اور حکمت اظہار پاکیزگی و پلیدی قلب فرد ہے تاکہ جو کچھ لوگ دل میں خدا اسکے رسول اور مومنین کی نسبت پنہاں کئے بیٹھے سب منزل شہود اور آجائے اور کتنے پانی میں اس کی اس کو اور دوسروں خبر ہو جائے یخفون فی انفسھم ما لا یبدون لک (۲۹) یعنی جو لوگ وعدہ الٰہی اور شہادت کی اہمیت اور حقیقت سے نابلد ہیں اور رسول خدا کی نسبت شاکی ہیں خدا نے ان کے خبث باطن کو آشکار کرنے اور ان کے شیطانی خیالات کو کھول کر بیان کرنے کے لئے کفار کے ساتھ جنگ و جدال کا حکم صادر فرمایا اور ان آیات و احکام کے ذریعے ریاکاروں اور منافقوں کے باطنی اسرار کی نمائش کا سامان مہیا کیا۔ان  آیات اور ان جیسی دوسری آیات کی اساس پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ فلسفہ ابتلا از نظر قرآن انسانی شخصیت کا واضح ہونا ہے اور امتحان وہ کسوٹی ہے جس پر ہر انسان کو پرکھا جاتا ہے اور اس کے ایمان کے خلوص اور کھوٹ کا اندازہ کیا جاتا ہے اور اسکی چھپی ہوئی حقیقتیں روشن ہو جاتی ہیں روحانی طہارت اور پلیدگی جو بھی انسان کے باطن میں نہاں ہو وہ کھل کر سامنے آجاتی ہے۔

ج۔ ایجاد حالتِ تضرع:  قرآن اکثر مقامات پر امتحان کو خشوع و خضوع کا ذریعہ جانتا ہے اور سابقہ امتوں پر نزول بلا کا سبب یہ بیان کرتا ہے کہ وہ سرکشی اور بغاوت سے ہاتھ اٹھا لیں اور ان کے دل نرم ہو جائیں ولقد ارسلنا الی امم من قبلک فاخذنٰھم بالباسأِ و الضرّأِ لعلھم یتضرّعون (۳۰) اسی طرح دوسری آیت میں خدا کا ارشاد ہے کہ و ما ارسلنا فی قریۃ من نبیٍ الأّ اخذنا اھلھا  بالباسأِ و الضرّأِ لعلھم یتضرّعون (۳۱)۔ لہذا روشن ہے کہ ابتلأ کے جملہ فلسفوں میں سے ایک تربیت اور انسان سازی ہے اور بلا اس بات کا سبب ہیکہ انسان کو سرکشی، فتنہ گری، انانیت اور فرعون منشی سے باز رکھے اور بندہ خدا کے حضور اپنے ضعف سے آگاہ ہو سکے اسی لئے خدا قرآن میں فرماتا ہے: و لو بسط اللہ الرزق لعبادہ لبغوا فی الارض (۳۲) یعنی اگر انسان کو مال و ثروت سے نوازا جائے تو وہ سرکشی کرتا ہے اس لئے خدا اکثر کو مال نہیں دیتا کم ہیں جن کو مال و ثروت کے ذریعہ آزمایا جاتا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے جس طرح مال دے کر امتحان لیا جاتا ہے بعنیہ مال واپس لیکر بھی امتحان لیا جاتا ہے بندگان الٰہی مال اولاد اور نفس غرض ہر طرح آزمائے جاتے ہیں تاکہ یہ سب راستے ان کو خدا کے حضور تضرع و زاری پر آمادہ کریں ولنبلونکم بشیٍٔ من الخوف والجوع و نقص من الاموال و الانفس والثمرات و بشرّ الصابرین (۳۳)۔

د۔  بلا و مصیبت نتیجہ اعمال انسان: بعض آزمائشات اور مصبتیں جو انسان کی جانب رخ کرتی ہیں وہ مکافات عمل ہوتی ہیں جیسے و مأ اصابکم من مصیبۃٍ فبما کسبت ایدیکم و یعفوا عن کثیرا (۳۴)۔

ھ۔  خواب غفلت سے بیداری: ولقد اخذنا آٔل فرعون بالسنین و نقص من الثمرات لعلھم یذّکّرون (۳۵) یعنی خدا نے فرعون والوں پر جو بلا نازل کی اس میں ان کے لئے یاد آوری تھی اور خواب گفلت سے بیدار ہونے کا عندیہ۔ امام صادق سے منقول روایت ہے: جب خدا کسی بندہ کے لئے خیر کا ارادہ کرتا تو اسکو بلاؤں اور مصیبتوں میں گرفتار کردیتا ہے تاکہ اس کے ذریعے بندہ استغفار کی جانب متوجہ ہو (۳۶)

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

فصل سوم

 

 

 

 

فلسفہ درد و رنج صالحین اور اولیائے الٰہی کی زندگی میں:

 

سوالات:

خلقت انسان کی علت کے سوال کے جواب میں عموماً کہا جاتا ہے کہ وہ خدا کو پہچانے اور اسکی پرستش کرے اور محمد و آل محمد علیہ و علیہم السلام کی معرفت حاصل کرے۔ یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہمیں ان ہستیوں کی معرفت حاصل کرنے کے لئے خلق کیا گیا ہے تو ان ذوات مقدسات کو کس لئے سختیوں اور رنج و آلام میں گرفتار کیا گیا؟  انکو سخت تریں امتحان اور آزمائشات سے کیوں گذارا گیا؟ ایک طرف ہم کہتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور انکا خاندان خدا کے محبوب ترین بندے اور انہی کے لئے ساری کائنات خلق کی گئی دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں سب سے زیادہ مصائب و آلام کا شکار بھی یہی خاندان ہوا خدا نے انبیا کو انسانیت کی ہدایت کے لئے مبعوث کیا اور آئمہ علیھم السلام کو دین کی حفاظت کی سپرد کی لیکن ان کو بد ترین وضعیت میں رکھا کیوں؟

علمأ فرماتے ہیں اگر انسان اپنی زندگی کو بدی سے دور کرلے اور تقویٰ اختیار کرے تو حتماً وہ سختیوں اور شدید آزمائشات میں گرفتار ہوجائے گا

الف۔ مختصر جواب:

ان سوالات کا اجمالی جواب یوں دیا جاسکتا ہے کہ مخلوقات کی خلقت کا ہدف اور بلاخصوص انسان کی خلقت کا ہدف اسکو فضیلت و کرامت بخشنا ہے اور یہ ہدف شر اور بلا سے کسی قسم کی منافات نہیں رکھتا کیونکہ

اولاً: جس عالم (دنیا) میں ہم زندگی گذار رہے ہیں عالم مادہ ہے اور مادہ کے خواص میں سے ایک تضاد کا وجود اور ناہمواری و نابرابری ہے جسکو شر سے تعبیر کیا جاتا ہے

ثانیاً: یہی چیزیں جنکو شر کہا جاتا ہے ان کی خلقت کا اصل ہدف اور ان سے مقصود بالذات شر نہیں خیر ہے اور انکا شر نسبی ہے۔

ثالثاً: یہ شرور بلا اور مصیبتیں انواع و اقسام کے فوائد اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں جیسے:

۔یہی شرور دنیا کی زیبائی کو نمایاں کرنے والے ہیں کیونکہ چیزوں کو ان کی اضداد کے ذریعے پہچانا جاتا ہے اگر بد صورتی کا وجود نہ ہو تو خوبصورتی اپنا مفہوم کھو دے۔

۔ یہ بلائیں اور شرور انسان اور جامعہ کی تربیت میں کلیدی حیثیت کی حامل ہیں اور بلا اور نعمت دونوں نسبی ہیں ممکن ہے ایک شخص ایک چیز سے بہترین طریقہ سے بہرہ مند ہو اور اسکو نعمت سے تعبیر کرے جبکہ دوسرا شخص اسی چیز سے سوئے استفادہ کرے اس چیز کو خود اپنی اور دوسروں کی نظروں میں شر بنا دے

ب۔ مفصل جواب:

خدا وند متعال نے اولیأ و صالحسین انبیا و آئمہ کو بلا اور مصیبت میں گرفتار کیا کیونکہ ایک طرف بلا انسان کے رشد و نمو کا ذریعہ ہے اور اور اخلاق کی تکمیل کا باعث ہے اور دوسری جانب یہ ثابت کرنے کے لئے اولیا کو بلاؤں سے روبرو کیا کہ جن چیزوں کو انسان شر سمجھ رہا ہے ان کے بارے میں یہ واضح ہوجائے کہ وہ شر نہیں بلکہ نسبی امور ہیں اگر وہ واقعاً شر ہوتیں تو خدا اپنے خالص بندوں کو کبھی ان میں گرفتار نہ کرتا یہ جہاں اور اس کی موجودات و مخلوقات بذات خود نفع کی حامل ہیں اور ان کا نفع خود ان کے وجود کے لئے ہے بالخصوص انسان (۳۷)

مصائب، شدائد اور مشکلات وغیرہ، خوشبختی و سعادت کے راستے ہیں بلاکل اسی طرح جیسے خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ ذالک بان اللہ یولج اللیل فی النھار و یولج النھار فی اللیل و ان اللہ سمیع بصیر (۳۸) یعنی جس طرح رات کے پردے سے دن نکلتا ہے اسی طرح شدائد و مشکلات میں انسان نکھرتا ہے اور اسکی شخصیت سامنے آتی ہے اور معروف ضرب المثل ہے ہر سیاہ رات کے بعد سویرا موجود ہے یہ آیت اور یہ ضرب المثل اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ جس طرح اجالہ اندھیرے کے بطن سے پیدا ہوتا ہے مصائب و آلام بھی سعادت ابدی و دائمی کا پتہ دیتے ہیں اور جس طرح سپیدی اپنے مخالف یعنی سیاہی کی انحرافی شرائط سے بر آمد ہوتی ہے بعنیہ سعادت اور فضیلت انسان بھی امتحان کی سختیوں کو تحمل کرنے کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے (۳۹)

جرمن فلاسفر ہیگل کہتا ہے: شر اور مصیبت منفی خیالی امور نہیں ہیں بلکہ کاملاً واقعیت رکھتے ہیں اور با نظر حکمت خیر و سعادت کا زینہ ہیں تنازع در اصل قانون ترقی ہے صفات حسنہ اور خوبیاں اس عالم کے ہرج و مرج اور دگرگونیوں میں ہی پروان چڑھتی ہیں اور تکامل پاتی ہیں اور انسان صرف راہ رنج و تحمل کے ذریعے ہی علویت کی منزل تک پہنچ سکتا ہے۔ (۴۰)

یہ جھان میں موجود بدصورتی اور برے لوگوں کا وجود اس بات کا باعث ہے ہیکہ خوبصورتی اور نیکی کو ان سے علیحدہ شناخت کیا جاسکے اگر جہان میں معاویہ کا وجود نہ ہوتا تو حضرت علی ابن ابی طالب علیھما السلام کو ان کی تمام عظمت، منزلت اور قدر کے ساتھ نا جانا جاتا (۴۱)

حضرت علی علیہ السلام اپنے ایک نامہ میں عثمان بن حنیف گورنر بصرہ کے نام لکھتے ہیں: ناز و نعمت میں زندگی بسر کرنا اور سختیوں سے دور بھاگنا کمزوری اور ناتوانی کا باعث ہے جبکہ اس کے برعکس زندگی کو سختیوں میں گذارنا یعنی سخت شرائط اور نا مساعد حالات میں گذارا کرنا انسان کو طاقت و قوت عنایت کرتا ہے اور چاق و چوبند بنا دیتا ہے (۴۲)

لہٰذا ثابت ہیکہ بلا اور مصائب اور نعمت دونوں امور نسبی ہیں اور ان کو دونوں کے ذریعے خدا اپنے بندوں کو آزماتا ہے مصائب بھی اس وقت نعمت میں تبدیل ہوجاتے ہیں جب انسان ان سے استفادہ کی درست راہ و روش ہے آگاہ ہو لیکن انسان اگر نزول بلا کے موقع پر جزع و فزع کرے اور ان سے فرار اختیار کرنے کی کوشش کرے تو بلا اس کے لئے واقعی بلا و مصیبت بن جاتی ہے اور اسکو اوج کمال پر پہنچانے کے بجائے اسکے قعر مذلت میں گرنے کا سبب بن جاتی ہے۔ ممکن ہے کہ دنیا کی نعمات انسان کے رفاہ و سعادت کا باعث ہوں ممکن ہے کہ یہ دنیاوی نعمات و آسائشات اس کے لئے مایہ بے چارگی اور بدبختی بن جائیں کیونکہ نا فقرو فاقہ مستی مطلقاً بدبختی ہیں نا ہی مال و دولت خوشبختی محض، بلکہ کتنی ہی بلائیں فقر و غربت اور بھوک و افلاس کی سختیاں انسان کے تکامل و سعادت کا باعث ہیں اور کتنی ہی نعمتیں ہیں جن کے پیچھے بدبختی چھپی ہے اس لئے کہ نعمت اور مصیبت کا سعادت یا شقاوت کا باعث بننا انسان کے اپنے ردِّ عمل پر منحصر ہے۔ ممکن ہے ایک چیز ایک شخص کے لئے نعمت کا باعث ہو اور اسکو خوشحال کرنے کا وسیلہ ہو در عین حال وہی چیز دوسرے شخص کے لئے نقمت ہو اور اس کے لئے رنج و آزار اور تکلیف کا باعث ہو۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ یہ تمام امور نسبی ہیں (۴۳)

اصل فلسفہ نزول بلا و گرفتاری صالحین و اولیائے الٰہی:

اس بات کے اثبات کے بعد کہ خیر و شر، نعمت و نقمت امور نسبی ہیں اور انسان ان کی موجودگی میں جیسا ردِّ عمل ظاہر کرتا ہے اسکو ویسا ہی نتیجہ مل جاتا ہے اور تمام مقدماتی اور تفصیلاتی ابحاث فلسفہ بلا کے آشکار ہوجانے کے بعد اب اس بات کا سمجھنا آسان ہو جاتا ہے کہ انبیا، آئمہ صالحین، اولیائے الٰہی اور خدا کے مقرب بندوں کی  زندگی میں سختیوں اور بلاؤں کا وجود کیوں رکھا گیا؟

خدا وند عالم نے انسان کی تربیت اور پرورش کے لئے دو دستورات (تشریعی اور تکوینی) مقرر کئے اور دونوں دستورات کو شدائد مشکلات اور مختلف النوع تکالیف سے مملو کیا۔ دستور اول یعنی دستور تشریعی میں عبادات اور اعمال و احکام کو واجب قرار دیا اور دستور دوم میں مصائب اور آلام و مشکلات کو راہ بشر میں ڈال دیااور ان دونوں کو آپس میں مخلوط کردیا کیونکہ یہ دونوں دستورات ایک دوسرے کو مکمل کرنے والے ہیں۔ روزہ، نماز، حج، جھاد وغیرہ تکالیف شرعی ہیں اور ان سب میں مشکلات اور شدائد ہیں انھی مشکلات و شدائد میں ان امور کی انجام دہی پر کمر بستہ رہنا اور استقامت دکھانا تکامل نفس اور انسان کی اعلیٰ صلاحیتوں کے پروان چڑھنے کا سبب ہے۔

بھوک، پیاس، خوف، جان و مال کا نقصان، بلائیں اور ابتلائات جو انسان کو تکویناً وجود میں آتے ہیں اور انسان کو اچانک گھیر لیتے ہیں اور ان سے فرار کی کوئی راہ ممکن نہیں ہی کمال یہ ہیکہ کہ انسان ان مشکلات میں گھر کر اپنے وظیفہ سے سر مو پیچھے نا ہٹے کیونکہ ان شدائد اور مشکلات کا مقصد انسان کی آزمائش ہے۔

انبیا و اولیا الٰہی بھی دیگر انسانوں کی مانند اسی جہانِ مادی کے باسی ہیں لہذا یہ ممکن نہیں ہے اس جہان پر حاوی قوانین مادہ سے بالا ہوجائیں اور زندگی بغیر رنج و مصیبت اور ابتلا و آزمائش کے بسر کریں کیونکہ بعض مصائب و آلام وہ ہیں جو مادہ کی خصوصیات کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں جیسے زلزلہ کا آنا، آندھی کا چلنا، قحط سالی اور اس جیسے دوسرے امور اگر اب راجع بہ این امور کو شخص یہ کہتا کہ یہ مصائب یہ رنج و آلام ان ہستیوں پر کیوں نازل ہوئے تو اس کو یہی جواب دیا جاسکتا ہے جو بھی اس عالم مادہ میں مادی جسم کے ساتھ وارد ہوگا اسکو ان مشکلات کو جھیلنا ہی ہوگا کیونکہ یہ خدا کا بنایا ہوا نظام ہے اور خدا نے زمین کو اسی نہج پر خلق کیا ہے اس میں یہ سب امور انجام پائیں گے اور اس میں اس بات کی کوئی قید نہیں کہ ان حادثات میں گرفتار ہونے والا بندہ مومن ہو یا کافی مقرب الٰہی ہو یا راندہ درگاہ خداوند متعال یہ امور سب کے لئے یکساں ہیں اور کسی کو اس میں تخصیص حاصل نہیں ہے

بعض دیگر بلائیں اور مصبتیں جو مادے کے لازمہ سے جدا ہیں وہ سنت الٰہی کے تحت اور سنت الٰہی میں تبدیلی نہیں ہوتی اور امتحان بھی ایک سنت الٰہی ہے اور اسمیں جو عمومیت پائی جاتی ہے اسکو ہم پہلے ہی ثابت کر چکے لہٰذا ان دلائل کی تکرار کی اب ضرورت نہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ امتحان سنت خدا ہے اور اسکی عمومیت کا تقاضہ یہ ہے کہ تمام افرا کا امتحان ہو۔

نفس انسانی ہر لحظہ تکامل کی جانب گامزن ہے اور انسان کی سعادت اور اس کا کمال روح کی ترقی میں پوشیدہ ہے لہٰذا اولیائے الٰہی کی روح کو کامل ترین ہونا چاہئے تاکہ انسان کامل کا مصداق بن سکیں اور یہ شدائد و مشکلات انسان کی ترقی کے ذرائع ہیں اس لئے انبیا و اولیا اور آٗئمہ کے امتحانات ذیادہ سخت تھے کہ ان کی روح بالا ترین درجات کی حامل تھی اور احادیث میں وارد ہوا ہے جس وقت خدا بندے کے ساتھ خیرکا ارادہ کرتا ہے تو بلاوں کا رخ اس کی جانب موڑ دیتا ہے اور یہ معروف جملہ البلأ للولأ اسی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے (۴۴)۔

اولیائے خدا پر جو بلائیں نازل ہوتیں ہیں وہ ان کے گناہوں کا نتیجہ نہیں ہوتی کہ ان کے سبب وہ گناہوں کی پلیدگی سے پاک ہوجائیں وہ تو گناہوں سے منزہ و مبرا ہوتے ہیں ان پر نازل ہونے والی بلاؤں کا ایک سبب انکا عشق خدا وندی ہے جو ان کو کشاں کشاں سوئے خدا کھینچ رہا ہوتا ہے اس عالم میں خدا ان کو ظاہری امتحانات میں گرفتار کرکے اپنی جانب بلند ہونے کے مواقع فراہم کرتا ہے اور یہ امتحانات ان کے درجہ کمال کے ارتقا کا سبب بنتے ہیں۔ امام علی علیہ السلام کا ارشاد گرامی قدر ہے بلا ظالم کے لئے تادیب ہے مومن کے لئے امتحان ہے اور پیامبروں کے لئے مقام و درجہ ہے (۴۵)۔ امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: خدا جب کسی بندے کو دوست رکھتا ہے تو اسکو شدائد و مشکلات میں غرق کر دیتا ہے (۴۶) لہذا صالحین اور انبیا و الیائے الٰہی کے بلا اور آزمائش لطف خدا اور محبت خدا کا نتیجہ ہے، انکے رشد و تکامل کا وسیلہ ہے اس بنیاد پر اولیا الٰہی کی زندگی میں وجود بلا کو قہر الٰہی سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ امتحانات و آزمائشات اور بلائیں رحمت الٰہی کے نظارے ہیں اور جو ان میں جس قدر ثبات قدم دکھاتا ہے اسی حساب سے ارتقأِ معنوی پاتا ہے اور جو بھی صبر پیشہ رہتا ہے بشر الصابرین کا مصداق بن جاتا ہے۔

امام باقر سے منقول ایک حدیث ہے:خدا اپنے بندۂ مومن کی دلجوئی کرتا ہے تو تحفہ میں اس کے لئے بلا و امتحان بھیج دیتا ہے اسی طرح جیسے کو شخص سفر سے اپنے اہل و عیال کے لئے تحفہ بھیجتا ہے(۴۷)

سعد بن طریف کہتے ہین کہ میں امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں تھا ایسے میں جمیل ازرق داخل ہوا اور شیعوں کی مشکلات اور پریشانیوں کا تذکرہ کیا اور پوچھا کہ اسکا سبب کیا ہے کہ خاندان اہل بیت علیھم السلام کے دوستدار گوناگون مسائل کا شکار رہیں اور سختیوں کے بند و بار میں زندگی گذاریں؟ امام علیہ السلام نے امام سجاد علیہ السلام سے روایت کرتے ہوئے فرمایا: ایک گروہ انہی سوالات کو لیکر امام حسین علیہ السلام اور عبداللہ ابن عباس کے پاس آیا تھا اور راہِ حل کا تقاضہ کیا تو امام عالی مقام علیہ السلام نے ان کو جواب دیا: خدا کی قسم غربت، افلاس، کسمپرسی، بلا اور قتل و غارت گری اونٹوں کے کے دوڑنے سے زیادہ تیز اور سیلاب کے پانی سے زیادہ سریع تر ہمارے دوستوں کی جانب بڑھتی ہیں اگر ایسا نہ ہو تو جان لو کہ ہمارے دوستوں میں نہیں ہو (۴۸)

امام صادق علیہ السلام کا فرمان والا صفات ہی کہ زیادہ تر بلائیں جو انسانوں پر نازل ہوتی ہیں وہ پہلے انبیا پھر ان کے جانشینوں اور ان کے پیروکاروں پر نازل ہوتی ہیں (۴۹) پھر دوسروں کی جانب رخ کرتی ہے امتحان اور شدائد کے سمندر کی موجوں کی مانند ہیں جس طرح سمندر کی موجوں سے لڑ کر پیراکی سیکھتا ہے اسی طرح انسان کی روحانی تربیت اور ترقی اسی قدر ہے جیسا اسکا بلاوں سے سابقہ اوران میں صبر و استقامت کا انداز ہے چونکہ خدا چاہتا ہے کہ اسکا بندہ مومن رشد و تربیت کامل حاصل کرے لہٰذا اسے امتحانات اور آزمائشات میں مبتلأ کرتا ہے تاکہ وہ اس سمندر کی موجوں سے لڑ کر تیرنا سیکھ لے اور رشد و کمال کی ممکنہ حد تک رسائی حاصل کر سکے۔

 موجب کرامت

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: بلا ظالم کے لئے ادب سیکھنے کا ذریعہ مومن کے لئے امتحان کا وسیلہ پیامبران کے لئے درجات کی بلندی اور اولیائے الٰہی کے لئے موجب کرامت ہے (۵۰)۔

خدا کی بارگاہ میں مقام و منزلت کا سبب: سلیمان بن خالد امام صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں: بندہ مومن کا خدا کے نزدیک مقام و منزلت اور مرتبہ ہے اور اس مقام تک رسائی دو راہوں سے ممکن ہے ایک مال کا زیاں دوسرا بلا و مصیبت جسمانی (۵۱) اس حدیث سے واضح ہوجاتا ہے کہ خدا کے نزدیک جو مقام اس کے بندوں کے لئے محفوظ ہے اس تک رسائی صرف ان ہی دو راستوں سے گذر کر ممکن ہے اور سنت الٰہی یہ ہے کہ ہر بندہ خدا تک پہنچنے کے لئے ان راستوں کو اختیار کرے تو اس میں تخصیص کی گنجائش نہیں وہ صالحین ہوں، آئمہ و انبیا علیھم السلام ہوں یا اولیائے الٰہی سب کو اسی راہ سے گذر کر خدا تک پہنچنا ہے۔ انبیا و صلحا پر مصائب کی شدّت اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ وہ خدا کے نزدیک کس قدر بلند مرتبہ کے حامل ہیں امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں: مومن کی بیماری اس کے لئے رحمت اور گناہوں سے پاک ہونے کا وسیلہ ہے اور کافر کے لئے یہی بیماری عذاب اور لعنت خدا ہے (۵۲)۔

نہج البلاغہ کا بیان:  حضرت علی علیہ السلام ابتلائے اولیائے الٰہی کے بارے میں فرماتے ہیں: اگر خدا بیت اللہ مناسک حج کے مقامات(منی، صفا و مروہ وٖغیرہ) کو باغات اور نہروں اور سرسز و شاداب مقامات پر قرار دیتا اور آباد راہوں میں بناتا تو جس طرح آزمائش سادہ ہوتی اسکی جزأ بھی کم ہوتی خداوند متعال اپنے بندوں کو مختلف انواع و اقسام کی سختیوں سے آزماتا ہے اور بہت مشکلات اور سختیوں میں گھرا ہوا اپنی عبادت کی جانب بلاتا ہے اوار شدائد و مشکلات میں گرفتار کرتا ہے تاکہ غرور اور خود پسندی کو  ان کے دلوں سے نکال سے اور اسکی جگہ فروتنی و انکساری کو ان کے دلوں کی زینت بنا دے تاکہ اپنے فضل و رحمت کے دروازے ان پر کھول دے (۵۳) اور ان کے لئے عفو و بخشش کا سامان فراہم کردے۔

نمونۂ عمل: ایک اور اہم نکتہ جس کی جانب اشارہ ضروری ہے کہ انبیا و اولیأ اور آئمہ کرام علیھم السلام پر بلائیں نازل ہونے کا ایک سبب انکا بندگان خدا کے لئے نمونہ عمل ہونا ہے اور اسو امر کی نشاندہی ہے کہ خدا کی جانب سے جب کبھی بھی بندہ کی آزمائش ہو تو اسکو آزمائش کے ایام کو کسطرح گذارنا ہے اور امتحان میں کامیابی کے لئے اسے کس نہج پر عمل کرنا ہے۔  انبیا و آئمہ جو ہادی بندگان ہیں اس امتحان کے مسئلہ میں بھی لوگوں کے لئے ہادی ہوں اور لوگ ان کو دیکھ کر عمل کریں اور جزع و فزع سے خود کو بچائے اور امتحان کے پہلے مرحلے میں ہی اپنے ایمان اور اعتقاد سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔

اولیائے الٰہی کا امتحان اس جہت سے بھی لیا گیا تاکہ واضح ہوجائے کہ امتحان الٰہی عمومیت رکھتا ہے اور اس سے کسے کے لئے بھی چھوٹ یا کوئی تخصیص و تخفیف نہیں ہے اور جن  یہ بھی ثابت ہو جائے کہ جن لوگوں کو قیامت کے دن جزائے خیر دی جائے گی اور ان کے نیک اعمال کا وزن دوسروں کے نیک اعمال کے وزن سے زیادہ ہوگا انہوں نے اس کا استحقاق دنیا میں ہی سخت ترین امتحانات دے کر پیدا کیا تھا۔ عمومیت امتحان الٰہی اس سوال اعتراض کا جواب بھی ہے کہ اگر خدا کچھ لوگوں کو آزماتا اور کچھ کو نا آزماتا تو لوگ کہہ سکتے تھے کہ جن کو آزمایا نہیں گیا اگر ان کو بھی آزمایا جاتا تو وہ بھی عرصۂ امتحان میں دوسرے گناہگاروں کی طرح ناکام و نامراد ہوجاتے۔

سوال آخر:

آئمہ اور اولیا کو خدا نے جو مناصب و مراتب عنایت کئے ہیں وہ ان کو امتحان سے پہلے ہی عنایت کردیئے تھے وہ جس وقت دنیا میں اسی وقت سے اپنے مناصب کے حامل تھے یہ الگ بات کہ اس منصب کا اظہار انہوں نے ایمائے ایزدی پر اس کے مخصوص و معین وقت اور مقام پر کیا، پھر ان سے اسقدر سخت امتحانات کیوں لئیے گئے؟

جواب:

اس سوال کے کچھ ممکنہ جوابات ہو سکتے ہیں

۱۔  خدا نے ان ہستیوں کا امتحان اپنے علم میں لیا وہ اس میں کامیاب رہے ان کو دنیا میں بھیج کر خدا نے انکو امتحانات میں اس لئے مبتلا کیا تاکہ لوگ جان لیں کہ خدا کا انتخاب درست تھا اور اس کے ان پاکیزہ بندوں نے اپنے ارادے اور اختیار کے ہمراہ ان امتحانات اور ابتلائات میں ثابت قدمی دکھائی ہے اور وہ اس امتحان سے پہلے جس مقام اور منزلت پر تھے اسکا اثبات کیا ہے کہ وہ اس مقام و مرتبہ کے واقعی اہل تھے۔

۲۔  امتحان درجات کی بلندی کے لئے ہے آئمہ اور انبیا و اولیا کا امتحان بہ این معنی لیا گیا کہ لوگوں پر ان کے بلند درجات کی حقیقت واضح ہوجائے کہ انہوں نے جو مقام و مرتبہ حاصل کیا ہے انہی سختیوں کو جھیل کر حاصل کیا ہے۔

۳۔ انبیا اور آئمہ کا امتحان اس لئے لیا گیا کہ جو لوگوں پر یہ واضح ہوجائے کہ وہ ذوات جو قرب خدا کی منزل پر اور اسکی جانب سے پیغام بندوں تک پہنچانے پر معمور تھے اور جنکا رابطہ خدا کے ساتھ بذریعہ وحی استوار تھا، خدا جب ان کو مصائب اور شدائد میں مبتلا کرتا ہے تو باقی بندے جو اسکی جانب سے مناصب اور امور کی انجام دہی کے لئے نہیں چنے گئے ان کو بغیر امتحان اور آزمائش کے کوئی مقام و مرتبہ یا منصب کیونکر مل سکتا ہر؟

۴۔ بندگان خدا جن کی محبت کا دم بھرتے ہیں وہ یہ جان لیں کہ جب ان کے محبوب و ممدوح نے سختی میں زندگی گذاری ہے تو ان پر جو سختیاں اور مصائب کی بارشیں وہ ان میں ثابت قدم رہیں اور انبیا و اولیا کا اتباع کرتے ہوئے خدا کے راستے پر گامزن رہیں۔ راہ حق میں استقامت اور حوصلہ  ٹوٹنے نا پائے اور یہ بات سمجھ لیں کہ امتحان سنت الٰہی ہے جس سے گذر کر ہی خدا اسکے رسول اور ان کے قرابت داروں سے محبت کا ثبوت فراہم کیا جاسکتا ہے

 

نتیجہ بحث:

 

پس فلسفہ مصائب بالخصوص صالحین و اولیائے الٰہی سے امتحان لینے کا فلسفہ، تربیت و پرورش روح و جان ہے اور امتحان و ابتلا تکامل معنوی کا وسیلہ ہے (۵۴)۔ انبیا، اولیا اور صالحین کی زندگی میں درد و رنج، آلام و مصائب کا وجود اس لئے ہے کہ وہ انسانیت کے لئے کامل نمونہ عمل بن سکیں کیونکہ جس شخص نے خود امتحان کی منازل طے نہیں کی ہوں اور جو سختیوں اور ابتلائات کا شکار نہ ہوا ہو وہ دوسرے غم گزیدہ اور مبتلائے آزمائش لوگوں کے لئے نمونۂ عمل نہیں بن سکتا

 

اللھم صل علی محمد و آل محمد

تمت بالخیر

۱۳۹۴۔۰۳۔۱۵

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

حوالا جات

۱۔ سورہ ملک آیت ۱۳

۲۔ سورہ النمل آیت ۷۴ و ۷۵

۳۔ سورۂ انفال آیت ۳۷

۴۔ بیست گفتار ۔ شہید مرتضیٰ مطہری صفحہ ۱۴۸ و ۱۴۹

۵۔ سورہ اسریٰ آیت ۲۰

۶۔ سورہ انسان آیت ۳

۷۔ لغت العربیہ باب بلا چاپ فروری ۱۹۸۱ کراچی پاکستان

۸۔ مفردات راغب اصفہانی

۹۔ دام عاشقی آزمائش و امتحان انسان در قرآن نویسندہ سید جعفر موسوی نسب صفحہ ۷

۱۰۔  سورہ بقرہ آیت ۱۵۵

۱۱۔ دام عاشقی سید جعفر موسوی نسب صفحہ ۱۸

۱۲۔ سورہ مومنون آیت ۳۰

۱۳۔ سورہ عنکبوت ۲ اور ۳

۱۴۔ دام عاشقی سید جعفر موسوی نسب صفحہ ۱۴

۱۵۔ سورہ ملک آیت ۲

۱۶۔ سورہ انسان آیت ۲

۱۷۔ سورہ انبیأ آیت ۳۵

۱۸۔ سورہ آل عمران آیت  ۱۸۵ و ۱۸۶

۱۹۔ سورہ طور آیت  ۲۱

۲۰۔ دام عاشقی سید جعفر موسوی نسب صفحہ ۲۱

۲۱۔  سورہ اسریٰ آیت ۸۵

۲۲۔ سورہ طہٰ آیت ۷

۲۳۔ سورہ احزاب آیت ۱۰

۲۴۔ دام عاشقی سید جعفر موسوی نسب صفحہ ۲۱

۲۵۔ سورہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آیت ۳۱

۲۶۔ سورہ حجرات آیت ۱۶

۲۷۔ سورہ محمد آیت ۳۰

۲۸۔ سورہ آل عمران آیت ۱۵۴

۲۹۔ ھمان

۳۰۔ سورہ انعام آیت ۴۲

۳۱۔ سورہ آل اعراف ۹۴

۳۲۔ سورہ شوری آیت ۲۷

۳۳۔  سورہ بقرہ آیت ۱۵۵

۳۴۔ سوری سوریٰ آیت ۳۰

۳۵۔ سورہ اعراف آیت ۱۳۰

۳۶۔ میزان الحکمہ جلد ۲ صفحہ ۵۷۷

۳۷۔ الاقتصاد الھادی شیخ طوسی ص ۳۱ ( انٹرنیٹ)

۳۸۔ سورہ حج آیت ۶۱

۳۹۔ عدل الٰہی شہید مرتضی مطہری صفحہ ۱۷۳ و ۱۷۴

۴۰۔ تاریخ فلسفہ ویل ترجمہ ڈاکٹر عباس زریاب خوئی صفحہ ۲۴۹و ۲۵۰ ( انٹرنیٹ)

۴۱۔ عدل الٰہی شہید مرتضیٰ مطہری صفحہ ۱۶۴ تا ۱۶۶

۴۲۔ نہج البلاغہ ۔۔ مکتوبات۔۔۔ مکتوب نمبر ۴۵ ترجمہ و شرح مفتی جعفر حسین

۴۳۔ عدل الٰہی شہید مطہری صفحہ ۱۸۵

۴۴۔ ھمان صفحہ ۱۷۸ تا ۱۸۱

۴۵۔ میزان الحکمہ جلد ۲ صفحہ ۱۶۹

۴۶۔ ھمان صفحہ ۵۷۹

۴۷۔ شیخ کلینی اصول کافی جلد ۲ صفحہ ۲۵۵ (ترجمہ مولانا ظفر حسن نقوی چاپ پاکستان جولائی ۱۹۸۲)

۴۸۔ فرھنگ سخنان امام حسین علیہ السلام ۔۔۔ دشتی صفحہ ۱۴۵ و ترجمہ بحار الانوار جلد ۱۵ علامہ مجلسی صفحہ ۱۹۴

۴۹۔ کلینی اصول کافی جلد ۲ باب شدت ابتلأ مومن حدیث ۲

۵۰۔ مستدرک الوسائل جلد ۲ صفحہ ۴۳۸

۵۱۔ اصول کافی جلد ۲ باب شدت ابتلأ مومن حدیث ۲۳

۵۲۔ بحار الانوار ۔۔ مجلسی جلد ۸۱ صفحہ ۱۸۳

۵۴۔ نہج البلاغہ ترجمہ و تشریح مولانا ذیشان حیدر جوادی خطبہ ۲۹۱

منابع و مآخذ

 

۱۔ قرآن کریم مع ترجمہ فارسی انتشارات آئین دانش پائیز ۱۳۹۱ ھ۔ ش

۲۔ قرآن کریم مع اردو ترجمہ حافظ فرمان علی ناشر حاجی اکبر ایچ ابراہیم فیملی جنوری ۲۰۱۳ میلادی

۳۔  مفرادات راغب اصفہانی انتشار۔۔۔۔۔۔۔ ۱۳۶۰ ھ۔ ش

۴۔ لغت العربیہ باب بلا چاپ فروری ۱۹۸۱ کراچی پاکستان

۵۔ نہج البلاغہ ترجمہ و شرح مفتی جعفر حسین ناشر حسن علی بکڈپو کراچی اپریل ۱۹۷۷ میلادی

۶۔  نہج البلاغہ ترجمہ و تشریح علامہ ذیشان حیدر جوادی ۔۔۔۔۔۔انصاریان ۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۹ میلادی

۷۔ بیست گفتار شہید مرتضیٰ مطہری انتشارات صدرا چاپ دوم بھمن ۱۳۸۲ ھ۔ش

۸۔ دام عاشقی آزمائش انسان در قرآن نویسندہ سید جعفر موسوی نسب انتشار۔۔۔۔۔۔۔

۹۔ عدل الٰہی شہید مرتضی مطہری ناشر کوثر تحقیقاتی مرکز کراچی جمادی الثانی ۱۴۲۹ ہجری

۱۰۔ تاریخ فلسفہ ویل ۔۔۔ مترجم دکتر عباس زریاب خوئی ۔۔۔۔۔ E- FILE

۱۲۔ میزان الحکمہ ۔۔۔۔۔ ناشر محفوظ بک ایجنسی کراچی پاکستان۔۔۔۔ ۱۹۹۳ میلادی

۱۳۔ الاقتصاد الھادی شیخ طوسی انٹرنیٹ آن لائن ریڈنگ بکس

۱۴۔ مستدرک الوسائل احمد بکڈپو کراچی پاکستان

۱۵۔ اصول کافی ترجمہ الشافی مترجم مولانا طفر حسن نقوی امروہوی موچی درہ لاہور ۱۹۸۱ میلادی

۱۶۔ فرھنگ سخنان امام حسین علیہ السلام ۔۔۔ دشتی قم ایران

۱۷۔ بحار الانوار علامہ مجلسی ترجمہ مترجم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناشر محفوظ بک ایجنسی مارٹن روڈ کراچی

اس تحقیق کی پی ڈی ایف فائل ڈاؤنلوڈ کرنے کیلئيے یہاں کلک کریں.

 

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی