قصاص پر ہونے والے بعض اعتراضات اور انکے جوابات
مندرجہ ذیل مقالہ جناب مولانا علی فاضل صاحب کی تحریر کا اردو ترجمہ ہے، جسے انہوں نے مرحوم علامہ مجلسیؒ کی کتاب 'حدود و قصاص و دیات' کی تحقیق و بررسی میں بیان کیا ہے۔
قصاص پر ہونے والے بعض اعتراضات اور انکے جوابات
اعتراضات
۱) با ثقافت لوگ قصاص سے متنفر ہیں۔
۲) قصاص ایک اور انسان کی جان کا ضیاع ہے۔
۳) قصاص کا منشاٗ انتقام جوئی ہے جو کہ خود ایک بری صفت ہے، جس کو معاشرے کی تربیت کےذریعہ معاشرے سے ختم کرنا چاہیے اور قاتل کو قید کے ذریعہ اور دیگر ذرائع سے تربیت کرنی چاہیے۔
۴) قاتل نفسیاتی مرض کی وجہ سے قتل کا مرتکب ہوتا ہے اسلیے اسکا نفسیاتی علاج کرنا چاہیے ۔ نہ یہ کہ اسے بھی قتل کر دیا جائے۔
۵) انسانی جان سے اجتماع بشری کیلئے جتنا ممکن ہو استفادہ کرنا چاہیے اسی لیے اسے قتل کے علاوہ کوئی اور سزا دینی چاہئے تاکہ اسکے وجود سے معاشرہ استفادہ کر سکے۔
جوابات
قصاص کے حکم سے نفرت، اس حکم کے فلسفہ سے جھالت کی بنا پر ہے:
قصاص کا حکم انتقام گیری کیلیے نہیں ہے بلکہ اس حکم میں بقیہ انسانوں کی تربیت کا پہلو پوشیدہ ہے۔ اسکے علاوہ خود قتل جیسے فساد کے مزید وقوع پذیر ہونے میں رکاوٹ کا باعث بھی یہی حکم بنتا ہے۔
درست ہے کہ قصاص کے حکم میں ایک شخص جو کہ قاتل ہے ، قتل کیا جاتا ہے لیکن یہ ایک قتل بقیہ انسانوں کی زندگی کی ضمانت بنتا ہے یعنی لوگ جن کے لیے بعد میں قتل ہونے کا امکان اس قاتل کے وجود کی وجہ سے ممکن تھا، قصاص کا حکم ان تمام انسانوں کی جانوں کے ضائع ہونے میں رکاوٹ کا سبب بنتا ہے۔
جیسا کہ پروردگار عالم نے قرآن مجید میں فرمایا ہے: وَ لَكُمْ فِي الْقِصاصِ حَياةٌ يا أُولِي الْأَلْبابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُون (صاحبان عقل تمھارے لیے قصاص میں زندگی ہے کہ شاید تم اس طرح متقی بن جاؤ: البقرۃ، ۱۷۹) اسی لئے اجتماع بشری میں موجود خطرناک افراد کا خاتمہ ، اس اجتماع کے رشد و تکامل کیلیے بہترین ذریعہ ہے۔
قصاص ایک اور انسانی جان کا ضیاع!!!
پچھلے جواب سے واضح ہو گیا ہے کہ اس ایک انسانی جان کا قتل جوکہ قاتل ہے، انسانی معاشرے میں ظلم و جنایات اور مزید قتلوں کی روک تھام میں کس حد تک موثر ہے۔ اس بات پر دلیل؛ ان جگہوں پر کہ جہاں قصاص کے حکم کو اجرأ نہیں کیا جاتا ہے، وہاں کے قتل کے بڑھتے ہوئے اعداد و شمار ہیں ۔
آیا قصاص حقیقتاً انتقام جوئی ہے؟؟؟
ھر عمل جو کہ محبت اور مھربانی کا حامل ہو، فضیلت اور خوبی نہیں ہے کیونکہ محبت اور مہربانی کے موقع ھر جگہ پر اور ھر مورد میں نہیں ہوتے ہیں۔ محبت اور مہربانی کا احساس ان لوگوں کیلئے، جو کہ ناحق قتل کے مرتکب ہوئے ہوں درحقیقت انسانی معاشرے پر ایک اور ظلم ہے کیونکہ تیز اور بڑے دانتوں والے بھیڑیوں پر رحم کرنا درحقیقت بھیڑ بکریوں پر ظلم ہے۔
قاتل، ایک ذھنی مریض یا ناسور؟
قتل کرنے والا شخص انسانیت کے بدن میں ناسور کی مانند ہے کہ جسے اگر کاٹا نہ جائے تو بدن کے دوسرے اعضاٗ کو بھی فاسد کردے گا اسی لیے قاتلوں کیلیے اسلام قصاص کا حکم دیتا ہے تاکہ معاشرے کے دوسے افراد کی جانیں سلامت رہیں۔
آیا قاتل کیلیے دوسری سزائیں مؤثر ہیں؟
قاتل و جنایتکار لوگ قید و بند کی صعوبتوں سے خوفزدہ نہیں ہوتے ہیں اور نہ ہی نصیحت وغیرہ معمولاً قبول کرتے ہیں لہٰذا قید نہ صرف یہ کہ انکے لیے خوف کا باعث نہیں ہے بلکہ در حقیقت ان کے حق میں ایک مہر بانی ہے۔
بنابرایں، حدود و قصاص اسلامی کے اجرأ کے ذریعے جان، مال اور احکام الھی (جو کہ انسان کی کامیابی کاراستہ ہیں) میں حد سے تجاوز کرنے والوں پر سختی سے پیش آنا ہی صحیح ، منطقی اور عادلانہ طریقۂ کار ہے اور اسکے ذریعہ سے ہی معاشرے کے فرد فرد کیلیے حفاظت کا اقدام ممکن ہے۔ جس کے ذریعہ انسانوں کے لیے مادی اور روحانی حوالے سے آگے بڑھنے کے مواقع میسر آئیں اور مجرم اپنے ناپاک عمل پر متنبہ ہوں۔
اس مقالہ کی پی ڈی ایف فائل ڈانلوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔۔